ذرا تصور کریں ایک سال کے عرصہ میں انسان جتنے بھی انوارات اپنی روح میں جمع کرتا ہے خواہ وہ مطالعے کے ذریعے مصنفین کی روح سے منتقل ہوں یا عبادت کے ذریعے براہِ راست کائنات سے جذب ہوں یا مرشد کے طفیل دل سے دل میں منتقل ہوں۔ ایک سال میں جمع ہونے والی یہ روشنی صرف ایک منٹ کے غصے میں ختم ہوجاتی ہے۔
ہم اپنی پوری زندگی کی روشنی پچیس تیس یا چالیس پچاس منٹ بلحاظِ عمر میں ختم کر سکتے ہیں۔ روشنی جمع رہنے اور ضائع ہونے کی صورت میں جو فائدہ یا نقصان ہوتا ہے اس کی تفصیل میں اپنے اگلے ناول "سرمد کی گمشدہ دنیا" میں پیش کروں گا انشااللہ۔
یاد رہے غصے کی سب سے تیز اور خطرناک صورت حسد ہے۔ جو ایک منٹ میں آگ کی مانند انسان کے سارے اوصاف کو نگل لیتا ہے۔ بڑے سے بڑے عالم کو بھی غصے میں دیکھنے کے بعد پنجابی میں لوگ کہتے ہیں کھوتے تے کتاباں لدیاں وان۔
اسی غصے پر لوگ اتراتے بھی ہیں۔ کہتے ہیں غصے میں ایسا ہو جاتا ہوں ویسا ہو جاتا ہوں۔ وغیرہ۔ غصہ فطرت کا حصہ ہے کیونکہ انسانی صرف مٹی سے نہیں بنا۔ آگ بھی ایک ایلیمنٹ ہے۔ اس غصے کو کسی دوسرے اچھے جذبے کی طاقت سے کچل دینا یا کسی مفید سرگرمی میں صرف کر دینا اصل بہادری اور نقصان سے بچاؤ کا واحد ذریعہ ہے۔
غصے کو ختم کرنے والی چیز اللہ تعالیٰ کی صفات "الرحمن الرحیم"ہیں۔انسان کے اندر الرحمن الرحیم کا نور رحم اور شفقت کی شکل میں موجود ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے۔
اپنے بچوں کے لئے شفقت و برداشت جو کہ حیوانی لیول ہے سے لے کر انسانی لیول جہاں ہر جاندار کے لئے بے لوث محبت امڈ آتی ہے پہنچ کر انسان غصے پر کافی حد تک کنٹرول حاصل کر لیتا ہے۔
غصہ مٹتا نہیں اگر مٹ جائے تو انسان کے اندر خرق عادات کی صلاحیتیں بیدار ہونے لگتی ہیں۔ وہ سپر مین جیسے کام کرنے کا اہل ہوجاتا ہے۔ اس پر دل میں چھپی باتیں منکشف ہونے لگتی ہیں۔ مزید تفصیل انشاءاللہ مسٹری کویسٹ سیریز کے اگلےناول میں۔
اسراراحمدادراکراولپنڈی 10 نومبر 2023
No comments:
Post a Comment